تاریخ تقویم
تقویم تاریخی
(قاموس تاریخی)
سن 1 بجری سے 1500 ہجری تک ہحری اور عیسوی سنین کی ماہوار تقابی جدولیں اور تاریخ اسلامی کے مشہور حوادث ، واقعات اور وفیات مشاہیر
تعارف کتاب
یہ کتاب ہجری اور عیسوی سنین کے مابین ایک تقابلی تقویم (جنتری) ہے۔ افادیت میں اضافہ کے لئے بعض مشاہیر اسلام کی وفیات اور تاریخ اسلامی کے بعض مشہور واقعات کی توقیت بھی کر دی گئی ہے تاکہ اہل علم کو دنیات و واقعات کے بنین کی تلاش میں دوسری بہت سی کتابوں کی ضرورت پیش نہ آئے۔
اگر کسی کو زیادہ تفصیلات مطلوب ہوں تو متعلقہ تاریخی کتب میں دیکھ لیں ۔ ان کے لئے آسانی اس قاموس تاریخی سے کم از کم اتنی حاصل ہو جائے گی کہ تلاش میں دقت نہ ہوگی ، تاریخ اسلام کی قدیم اور مستند کتابیں اکثر ہجری سنین پر مرتب کی گئی ہیں مثلا تاریخ طبری، تاریخ ابن کثیر اور تاریخ یعقوبی وغیرہ ، اس لئے ان کتابوں میں کسی خاص واقعہ یا کسی خاص بزرگ کی وفات کا سال امکان مشکل کام ہوتا ہے۔ یہ تقویم تاریخی آپ کو اس واقعہ کا سال اور مہینہ بنادے گی، اور یہ کام آسان ہو جائے گا کہ آپ بڑی تاریخوں میں سے اسی سال کے حوادث و واقعات دیکھ لیں ۔
کتاب کا منہج
تقابلی جنتری کا طریقہ اور حساب وہی ہے جو مشہور جرمن جنتری و سٹنفلڈ کا ہے۔ ہر ہجری مہینہ کی پہلی تاریخ کو س عیسوی سنہ کی کیا تاریخ اور ہفتہ کا کون سا دن تھا۔ بنار بتا دیا گیا ہے اگر ہجری تاریخ معلوم ہو تو عیسوی تاریخ اور دن معلوم کرنے کے لئے اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر عیسوی تاریخ معلوم ہو تو ہجری تاریخ اور دن معلوم کرنے کے لئے بھی آپ اس کو آسان اور کار آمد پائیں گے۔
یہ تقویم سنہ ہجری سے سنہ ہجری تک ہے اصل تقویم شروع کرنے سے پہلے دو صفحات میں ولادت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ابتداء ہجرت تک ۵۳ سال کا اجمالی نقشہ دے دیا گیا ہے ۔ یہ نقشہ موجودہ گریگوری کلینڈر کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ اور قمری سال کو موجودہ طریقہ پر ہے کیسے حساب نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ صرف آسانی کے لئے ہے۔ مقدمہ کتاب میں ہجری اور عیسوی سنین کی تاریخ پر مختصر نوٹ موجو د ہے اسے غور سے دیکھ لیں۔
01
اس سلسلہ میں ایک بات ذہن نشین رہے کہ اکتوبر 1583ء میں پاپائے گریگوری نے جو ترمیم کی تھی، اسے تمام ملکوں نے ایک ہی وقت میں قبول نہیں کیا، مختلف ملکوں نے مختلف اوقات میں اس ترمیم کو قبول کر کے اپنے ممالک میں گریگوری کلینڈر جاری کیا ہے۔ مثلاً انگلستان نے یہ کلینڈر میں اختیار کیا تھا۔ اس لئے ۱۵۸۳ء اور شاہ کی درمیانی تاریخوں کے لئے اگر کوئی تحریر انگلستان یا اس کے ماتحت مالک میں لکھی گئی ہو تو آپ اس جنتری میں مندرجہ تاریخ عیسوی میں سے دس دن کم کرلیجئے ، انگلستان کی دینی غیر مرحمه تاریخ مل جائے گی ۔ ہجری تاریخیں بہر حال وہی رہیں گی، اس میں کسی کی بیشی کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔
(۲)
دوسری بات یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہجری سنہ قمری ہے۔ یعنی بارہ قمری مہینوں کا ایک سال شمار ہوتا ہے۔ اس میں نہ کبھی کبیسہ ہوتا ہے اور نہ دقیق فلکیاتی حساب ہے یہ حقیقی سال ہے حضرت مسیح علیہ السلام سے ہزاروں سال پیشتر ہی لوگوں نے چاند کی گردش کے متعلق معلومات حاصل کر لی تھیں اور آج تک اس میں چند منٹ و سکینڈ سے زیادہ غلطی نہیں نکالی جاسکی ہے ۔ اس لئے :۔
( الف)
بذریعہ حساب یہ تو معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کسی خاص مقام پر پہلی تاریخ کا چاند نظر آجانا چاہیے
مگر۔ یہ کسی طرح نہیں معلوم کیا جاسکتا کہ واقعہ اس دن وہاں چاند نظر آیا ؟ ۔ کیوں کہ بادل، کہر ، غبار اور افق کی مختلف کیفیتوں سے اکثر چاند اپنے حسابی وقت پر نظر نہیں آتا۔
تاریخی فرق کی وجہ
اس صورت میں یہ ہر مندرجہ تاریخ میں ممکن ہے کہ ایک دن کا فرق آپ کو نظر آئے ۔ مثلاً 1300ھ ہجری کی پہلی محرم کو اس تقویم کے بموجب اور تمام بین الاقوامی تقویمیات کے بموجب یکشنبه کادن ۱۲ نومبر 1882ء تھا ، لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ کو رنگون کا لکھا ہوا ایک قدیم نوشتہ ہے جس پر یکم محرم 1300ھ بجری یوم دوشنبه مطابق ۱۳ نومبر 1882ء شاید تحریر ہو۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شنبہ نومبر شاہ کو کسی مقامی وجہ کی بنا پر چاند نہیں دیکھا جا سکا تھا، حالانکہ از روئے حساب چاند کا دکھائی دینا ضروری تھا۔
بہر حال بقدر طاقت بشری مولف تقویم تاریخی نے متعدد قدیم وجدید تقویمات سے اس کا مقابلہ کر لیا ہے، اور جہاں کوئی ضرورت محسوس ہوئی ہے خود حساب کر کے تصحیح کر لی ہے ۔ رہا بے خطا ہونے کا دعوی نہ اس حقیر کے لئے جائز ہے اور نہ کسی دوسرے انسان کے لئے - * *
کتاب کی خصوصیات
حوادث و واقعات کے مختصر سے خانہ میں بعض تاریخی حوادث اور زیادہ تر مشاہیر کی وفیات کا اندراج ہے۔ کیونکہ صحیح تاریخ وفات یا صحیح تاریخ واقعه اکثرو بیشتر معلوم نہیں ہوا کرتی ۔۔ اس لئے جو مل گئیں لکھ دی گئیں ۔ کہنا یہ ہے کہ اس سال میں یہ واقعہ ہوا تھا یا بزرگ وفات پائے تھے ۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ اس قمری مہینہ کی پہلی تاریخ کو یہ حادثہ ہوا تھا۔ اختلافات تاریخ میں حتی الامکان اصبح الاقوال کا اندراج ہے۔
مولف کو اس کا شدید احساس ہے کہ زیادہ کمل معلومات مہیا کی جاتیں تو زیادہ مفید کام ہوتا لیکن
ایک انچ کی ایک سطر سے زیادہ گنجائش اس جنتری میں نہیں تھی ۔ ورنہ کتاب کی ضخامت بہت بڑھ جاتی بلکہ کئی جلدوں کی گنجائش ناگزیر ہوتی۔ اور اس کتاب سے مقصود تو یہ تھا کہ ایک چھوٹی سی تقابلی تقویم اہل علم کے تاریخ کی کوئی وسیع کتاب اور ترجمے ہاتھ سے دینے کے لیے نہیں تھے۔
مولف تقویم شکر گزار ہے جناب ڈاکٹر فض الرحمن صاحب ڈائریکٹر اور جناب ڈاکٹر رفیق احمد صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامیہ کا کہ انہوں نے اس تقویم کو پسند فرما کر ادارہ کی طرف سے شائع کیا۔