قرآن حکیم کی تفسیر و تعبیر کا جامع اسلوب از مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری

 قرآن حکیم کی تفسیر و تعبیر کا جامع اسلوب

از

مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری 

قرآن حکیم کی تفسیر و تعبیر کا جامع اسلوب



قرآنی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور عمومی پھیلاؤ کے لئے برصغیر پاک و ہند میں جس تحریک کا آغاز حضرت الامام شاہ ولی اللہ دھلوی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا وہ آپ کی نبی اور روحانی اولاد کے ذریعہ سے بتدریج آگے بڑھتی رہی۔ قرآن حکیم کے حوالے سے آپ نے جس فکر و عمل کی بنیاد رکھی، اس کا اساسی مقصد ہر شخص کے دل و دماغ تک عام فہم انداز میں قرآنی علوم و معارف پہچانا تھا۔ چنانچہ آپ کے بعد آپ کے خانوادہ نبی و روحانی نے اس انداز فکر و عمل پر کام کر کے انسانی قلوب میں قرآنی تعلیمات منتقل کرنے کی جد و جہد فرمائی۔


حضرت الامام شاہ ولی اللہ دھلوی قدس سرہ نے قرآنی انقلاب کی گزشتہ تقریبا" ہزار سالہ تاریخ کا تحلیل و تجزیہ کرکے سب سے پہلے اس کی جامع فلاسفی کا تعین فرمایا۔ چنانچہ قرآن کی حکمت اور اس کے اسرار و رموز کی بنیادی فلاسفی کا تعین کرتے ہوئے معرکہ الاراء کتاب «حجتہ اللہ البالغہ " سپرد قلم فرمائی اس میں آپ نے قرآنی انقلاب کے جملہ اساسی اصولوں اور اس کے عملی تقاضوں کا ایسا جامع خلاصہ بہترین ترتیب کے ساتھ بیان کیا کہ جس سے دین اسلام کا مربوط نظام فکر و عمل اور اساس جو ہر نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔


اسی طرح آپ نے گزشتہ تفسیری ورثہ پر نظر کرتے ہوئے، قرآن حکیم کے علوم و معارف کا انتہائی تدبر سے جائزہ لیا۔ قرآن حکیم کے اس ہمہ جتہ مطالعہ کی وجہ سے آپ کے سامنے تفسیر قرآن کے بنیادی اساسی اصول سامنے آگئے، چنانچہ آپ نے منفرد انداز میں اس سلسلہ کی بنیادی کتاب "الفوز الکبیر فی اصول التفسير " لکھی ، گزشتہ چودہ سو سالوں میں اصول تغییر پر لکھی جانے والی کتابوں میں یہ کتاب حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں قرآن حکیم کا ایک ایسا تفسیری اسلوب سامنے آتا ہے ، جس سے عام فہم انداز میں قرآن حکیم کی تعلیمات کے تمام پہلو، اس سے استفادہ کرنے والے کے قلب و دماغ تک جا پہنچتے ہیں۔ ادھر ادھر کی تمام قیل و قال سے جان چھوٹ جاتی ہے، اور قرآن حکیم کی حقیقی تعلیمات کا اثر دل و دماغ تک منتقل ہوتا جاتا ہے۔

قرآنی تعلیمات کی بنیادی فلاسفی اور اساسی اصول تفسیر متعین کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دھلوی رحمہ اللہ نے قرآن حکیم کے دیگر زبانوں میں ترجمہ کی راہ کھولی، تاکہ ہر قوم اپنی زبان میں ترجمہ قرآن کے ذریعہ قرآنی علوم و معارف کو صحیح تناظر میں سمجھ سکے، چنانچہ آپ نے سب سے پہلے ہندوستان کی عام فہم علمی زبان فارسی میں قرآن حکیم کا بہترین ترجمہ کیا۔ قرآن حکیم کی آیات و نصوص پر از حکمت ہیں، اور بڑی جامعیت کے ساتھ نیچے تلے اور جامع کلمات کی صورت میں انسانی معاشرے کے جملہ دائروں کے بارے میں بنیادی راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان آیات و نصوص کا ایسے ہی جامع اور پر از حکمت اسلوب میں ترجمہ ہونا ضروری ہے۔ ایسا ترجمہ ہی قرآنی علوم و معارف کو صحیح طور پر سمجھانے کا باعث بن سکتا ہے۔ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دهلوی قدس سرہ اور آپ کے صاحبزادگان کے تراجم قرآن کی یہی وہ بنیادی خصوصیت ہے، جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کے تراجم اہل زبان کے دل و دماغ میں قرآنی تاثیر پیداکرنیکا باعث بنتے رہے ہیں۔


قرآنی تعلیمات کے حوالے سے حضرت الامام شاہ ولی اللہ دھلوی قدس سرہ کا یہ وہ شاندار طرز فکر و عمل اور جامع اسلوب تھا جسے اولا " آپ کے خانوادہ نبی نے پروان چڑھایا ۔ چنانچہ آپ کے عالی مقام صاحبزادگان حضرت الامام شاہ عبد العزیز دھلوی، حضرت شاہ عبد القادر دھلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین دھلوی نے قرآن حکیم کے تراجم اور تفاسیر لکھیں ۔ حضرت شاہ عبد العزیز دھلوی نے " تفسیر عزیزی" لکھی، جس میں آپ نے ہندوستان کے بلند طرز تمدن کو سامنے رکھ کر قرآنی تعلیم کے اس جدید اسلوب کو بیان کرنے کی سعی فرمائی اسی طرح حضرت شاہ عبد القادر دھلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین دھلوی نے حکمت سے بھر پور اردو تراجم کر کے اس اسلوب تفسیر و ترجمہ کو عام کیا۔


مسلمانوں کے زوال اور غلامی کے دور میں قرآنی تعلیم کا جو بغیادی اثر اور لازمی تقاضہ سامنے آیا۔ وہ جہاد حریت اور آزادی کی تحریک کی صورت میں میں جلوہ گر ہوا۔ کیونکہ غلام قوم میں قرآنی تعلیم کا پہلا اور لازمی اثر اپنی قومی آزادی کا حصول ہوتا ہے۔ آزادی فکر و عمل کے بغیر قرآن کی مجموعی تعلیمات پر کما حقہ عمل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔


اس پس منظر میں ہمیں حضرت الامام شاہ ولی اللہ دھلوی کے پوتے حضرت شاہ اسماعیل شہید اور حضرت شاہ عبد العزیز دھلوی کے خلیفہ اجل حضرت سید احمد شہید کی ” تحریک جہاد و حریت" کے ڈانڈے قرآنی تعلیم کے لازمی اثر سے جڑتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ عبد العزیز کے نواسے اور جانشین حضرت الامام شاہ محمد اسحاق دھلوی دھلی کے مرکز میں بیٹھ کر اس تحریک کی بھر پور مالی امداد فرماتے ہیں۔ اور اس کے لئے ہندوستان بھر میں اپنی سرپرستی اور نگرانی میں دیگر اہم امور سر انجام دیتے ہیں۔


اس طرح خانوادہ ولی اللھی نے جہاں اس مخطہ میں قرآنی تعلیمات کی بنیادی فلاسفی، اس کے اصول اور عام فہم انداز میں اس کی نشر و اشاعت کا کام کیا۔ وہاں اپنی عملی جدوجہد کے ذریعہ قرآنی تعلیم کے لازمی اثر ۔۔۔ تحریک جهاد و حریت کی آبیاری کی اس خطہ میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا۔ اور اس کے لئے قربانیاں دیں۔


اگلے دور میں ان حضرات کے فکر و عمل کی وارث جو جماعت سامنے آتی ہے۔ اس کے سرخیل سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور آپ کے دو اجل خلفاء حضرت الامام حکیم الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی اور امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ہوتے ہیں۔ ان حضرات نے نہ صرف خانوادہ ولی اللهی کے طرز فکر و اسلوب کو آتے منتقل کیا۔ بلکہ عملی جدوجہد کرکے قربانیوں کا لازوال نقش قائم کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں شاملی و تھانہ بھون کے میدان میں جہاد و حریت کا مرحلہ ہو یا دیوبند کا مرکز قائم کر کے ولی اللهی اصول پر قرآنی علوم و معارف کو انسانی قلوب میں منتقل کرنے اور اس حوالے سے جذبہ صادقہ پیدا کرنے کا عمل ہو۔ ہر ایک دائرے میں ان حضرات کی جدو جہد ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔


ان حضرات نے اگلے دور کے لئے جو جماعت تیار فرمائی، اس کے بنیادی ارکان ان حضرات ثلاثہ کے جانشین اور خلفائے اجل ہیں۔ جن میں ممتاز ترین حضرات قطب عالم حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن امیر مالئا، قطب الارشاد حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحم اللہ ہیں۔ ان میں حضرت عالی رائے پوری اور حضرت شیخ الہند" قرآنی تعلیمات کو اپنے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ بستی بستی گاؤں گاؤں پھیلانے میں خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ حضرت رائے پوری اور حضرت شیخ الہند کا باہمی . تعلق تو ایسا تھا گویا ایک جان دو قالب ہیں۔


ان تینوں حضرات نے باہم مل کر قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کی جو حکمت علمی مرتب کی تھی اس کے کئی پہلو ہیں۔ اور ہر پہلو اس حوالے سے بڑا جامع نظر آتا ہے کہ اس کے نتیجہ کے طور پر قرآنی تعلیمات کا پھیلاؤ ہوا، اور اغیار کے فکری اور عملی کردار کا توڑ سامنے آیا۔ مسلمانوں کے قلوب میں قرآن کے عالمی نظریہ پر یقین کامل اور اعتماد واثق پیدا ہوا۔ اور قرآنی نظریہ کے حوالے سے تربیت یافتہ افراد کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی، جو ہر قسم کے مادی مفاد اور ذاتی لالچ سے میرا ہو کر خالص قومی مفاد اجتماعی جذبہ اور ملی تقاضوں کے مطابق کام کرتی ہوئی قربانی دیتی ہے۔ اور یوں اگلی نسلوں کی جانب قرآنی علوم کو صحیح تناظر میں منتقل کرنے والی مختلص جماعت اور قیادت سامنے آتی ہے۔



Download Complete 

Article in PDF 


Post a Comment

Type Your Feedback